ترجمہ و تفسیر سورۃ 2 البقرة آیت 258 از محمد امین اکبر2:258
سورۃ البقرہ آیت 258۔ اگر نمرود سورج کو مغرب سے نکالنے کا مطالبہ کرتا۔۔۔۔
تحریر: محمد امین اکبر
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿۲۵۸﴾ۚ
کیا نہ دیکھا تو نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت اسی وجہ سے کہ دی تھی اللہ نے اس کو سلطنت جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ بولا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں کہا ابراہیم نے کہ بیشک اللہ تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے اب تو لے آ اس کو مغرب کی طرف سے تب حیران رہ گیا وہ کافر اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو۔
اس آیت کے حوالے سے ایک بات علامہ نیاز فتح پوری نے نگار میں لکھی تھی جسے ان کے مضامین کے مجموعے من و یزداں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ حضرت ابراہیم نے نمرود سے کہا کہ میرا خدا مشرق سے سورج کو طلوع کرتا ہے۔ تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ اس پر نمرود لاجواب ہوگیا۔
علامہ صاحب لکھتے ہیں کہ نمرود اگر الٹ کر کہہ دیتا کہ میں سورج کو مشرق سے نکالتا ہوں۔ تو اپنے خدا سے کہہ کہ وہ سورج کو مغرب سے نکالے تو حضرت ابراہیم کے پاس کوئی جواب نہ رہ جاتا۔
جواب
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قرانی واقعے میں نمرود کا بھی ذکر ہے۔ یہ نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا تھالیکن قرآن کریم کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نمرود خدائی کا دعویٰ تو کرتا تھا لیکن اسے خود معلوم نہیں تھا کہ حقیقی خدا کی صفات کیا ہیں۔ اس نمرود کے دور میں بھی بت پرستی ہوتی ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿الأنعام: ٧٤﴾
ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا "کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں” (۶: ۷۴)
لوگ ان بتوں کو ہی خدا سمجھتے تھے اور ان توہین برداشت نہیں کرتے تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں مذکور ہے کہ انہوں نے ان کے بت خداؤں کو توڑا تھا،جس کی پاداش میں انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا۔
سورۃ بقرہ کی آیت 258 میں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مکالمہ ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خدا کا تعارف کرایا کہ ان کا خدا وہ ہے جو زندگی دیتا ہےا ور موت دیتا ہے۔ اس کے جواب نمرود نے اپنی عقل کے مطابق دلیل پیش کی کہ زندگی اور موت تو وہ بھی دے سکتا ہے۔روایات کے مطابق یہاں نمرود نے بے گناہ کی پھانسی اور گناہ گار کو چھوڑ کر اس کا ثبوت بھی دیا ۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاکہ اُن کا خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر نمرود خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکالے۔ یہ سن کر نمرود حیران رہ گیا۔ اس کی حیرانی کی وجہ خدا کے وجود کی وہ دلیل تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی تھی۔
اب آ جاتے ہیں علامہ نیاز فتح پوری صاحب کی بات پر کہ نمرود اگر الٹ کر کہہ دیتا کہ میں سورج کو مشرق سے نکالتا ہوں۔ تو اپنے خدا سے کہہ کہ وہ سورج کو مغرب سے نکالے تو حضرت ابراہیم کے پاس کوئی جواب نہ رہ جاتا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں معلوم تھا کہ نمرود بھی جواب میں اسی دلیل کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں تو ایسا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علم میں تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مکمل اطمینان تھا کہ اللہ تعالیٰ مطالبے پر سورج کو مغرب سے بھی نکال سکتے ہیں ۔وہ اللہ کے رسول تھے، ان سے زیادہ کسے اس بات کا یقین ہو سکتا تھا۔ علامہ صاحب کو اگر شک تھا کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ایسا نہیں کر سکتے تھے تو اس سے اگلی آیت 259 میں بھی تو ایک معجزاتی واقعے کا ذکر جس میں حضرت عریز علیہ السلام سو سال تک سوتے رہے تھے۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [٢:٢٥٩]
یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی اُس نے کہا: "یہ آبادی، جو ہلاک ہو چکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟” اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ سوبرس تک مُردہ پڑا رہا پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: "بتاؤ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟” اُس نے کہا: "ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا” فرمایا: "تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اِس کا پنجر تک بوسید ہ ہو رہا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں” اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا: "میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے”
اس سے اگلی 260 ویں آیت بھی اسی طرح کی ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿البقرة: ٢٦٠﴾
اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: "میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے” فرمایا: "کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟” اُس نے عرض کیا "ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے” فرمایا: "اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے” (۲: ۲۶۰)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر نمرود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سورج کو مغرب سے نکالنے کا کہتے تو اللہ تعالیٰ لازما یہ کام بھی کرتے۔اس بات کا ثبوت اس آیت سے بھی ملتا ہے۔اگر مندرجہ بالا دو آیات کی کچھ تاویل معجزات سے ہٹ کر کی جائے تو قرآن کریم کےمطالعے سے ہی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا مطالبہ پوری کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔
وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ [٦:٣٧]
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں
اللہ تعالیٰ نے ماضی میں بھی لوگوں کے مطالبے پر ایسی مافوق الفطرت نشانیاں بھی ظاہر کی ہیں ۔
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ [٣:١٨٣]
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ الله نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ ہم کسی پیغمبر پر ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس قربانی لائے کہ اسے آگ کھا جائے کہہ دو مجھ سے پہلے کتنے رسول نشانیاں لے کر تمہارے پاس آئے اور یہ نشانی بھی جو تم کہتے ہو پھر انہیں تم نے کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو
ایسے میں یہ کہنا غلط ہے کہ نمرود سورج کو مغرب سے نکالنے کا مطالبہ کرتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کوئی جواب نہ رہ جاتا۔ اگر ایسا مطالبہ ہوتا تو اتمام حجت کے لیے یہ مطالبہ بھی لازمی پورا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.