قرآن کےالفاظ الہامی یا انسانی؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قران کریم کے الفاظ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے الفاظ میں آگے بیان کر دیا۔مجھے اس بات سے اختلاف ہے۔ قران کریم کے الفاظ الہامی ہیں جو ہم تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توسط سے پہنچے۔

اس بات کاسب سے بڑا ثبوت سورۃ یونس کی آیت 15 ہے کہ

” اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن ﻻئیے یا اس میں کچھ ترمیم کردیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں“

اس کے علاوہ پورے قران کے مطالعہ کے دوران قران کا اسلوب  ڈائریکٹ سپیچ کا ہے۔ اگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہوتا تو اس کا اسلوب بھی اِن ڈائریک سپیچ(indirect speech) کا ہوتا۔

اللہ تعالی کا کلام اسی زبان میں نازل ہوتا ہے، جو رسول یا نبی کی زبان میں ہوتی ہے۔ قران کریم اسی وجہ سے عربی میں نازل ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان عربی تھی۔ اس سے پہلے جو کلام نازل ہوا وہ عربی میں نہیں تھا۔

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ۔195 (سورۃ 26 آیت 192 تا 195)

ترجمہ: یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے (192) اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے (193) تاکہ تو اُن لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلق خدا کو) متنبّہ کرنے والے ہیں (194) صاف صاف عربی زبان میں ۔

اس آیت میں صاف لکھا ہےکہ جو کچھ نازل ہو رہا ہے، وہ عربی میں ہے۔جس وقت قران نازل ہوا نبی کریم صلی  اللہ علیہ و آلہ وسلم پڑھے لکھے نہیں تھے۔ جب کہ عرب میں بہت ے فصیح اور بلیغ شعرا تک موجود تھے۔ پڑھے لکھے افراد بھی تھے اور ان پڑھ افراد بھی۔ اب ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم پر کوئی ایسا کلام نازل کیا جاتا جوان کو سمجھ نہ آئے۔

اسی طرح جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جب پہلی وحی ہوئی تو وہ ان کو سمجھ آ رہی تھی، یعنی وہ ان کی اپنی زبان میں تھی۔

فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِ يَيَا مُوسَىٰ ﴿١١﴾ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴿١٢﴾وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ ﴿١٣﴾ إِنَّنِي أَنَا اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي۔(سورۃ 20 آیت11 تا 14)

ترجمہ:  وہاں پہنچا تو پکارا گیا "اے موسیٰؑ! (11) میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں ہے (12)اور میں نے تجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے (13) میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر ۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پر نازل ہونے والی الفاظ الہامی ہوتےہیں۔

ایک گفتگو کے دوران ایک صاحب نے کچھ آیات پیش کی، جن سے انہیں لگتا تھا کہ نبی  پر نازل ہونےو الے الفاظ الہامی نہیں  ہوتے بلکہ وہ اپنے الفاظ میں الہام کو ڈھال کر تبلیغ کرتےہیں۔ انہوں نے جو آیات پیش کیں انہیں ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں۔

هَٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ [٣:١٣٨]

ترجمہ:یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں اُن کے لیے ہدایت اور نصیحت

اس آیت کا قران کے  الفاظ الہامی یا انسانی ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو بس یہ بتا رہی ہے کہ  اس کتاب میں جو لکھا ہے، وہ وضاحت سے لکھا ہے۔ اس موضوع پر قران میں درجنوں آیات ہیں۔

  

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [١٤:٤]

ترجمہ:ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے

اس آیت کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ موضوع سے متعلق ہو سکتی ہے  لیکن قران کی دوسری آیات بتاتی ہیں کہ ان کا مطلب قران کےا لفاظ انسانی ہونے کا نہیں۔ قران کی آیات کے مطابق جب بھی رسول بھیجا جاتا ہے  اسی بستی میں سے بھیجا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اب وہ اسی بستی کی زبان میں تبلیغ کرے گا۔ اللہ کا پیغام بھی اس تک اسی  زبان میں پہنچتا ہے جس زبان کو وہ جانتا ہے۔ ایسی کوئی آسمانی زبان نہیں جس میں کلام نازل ہو پھر رسول اس کا ترجمہ کرے۔ 

دیکھیں  یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں  کہ پیغام بھیجنا اور پیغام کھول کھول کر بیان کرنا۔ آپ نے  تاریخٰ فلموں یا ڈراموں میں دیکھا ہو گا کہ  بادشاہ جب کوئی پیغام دور دراز کے مقامات پر بھیجتا ہے تو  پیغام لانے والا بادشاہ کا پیغام پڑھتا ہے، جو ظاہر ہے انہی کی زبان میں لکھا ہوتا ہے جن کے سامنے پڑھا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ پیغام سن کر بہت سے لوگوں کو ویسے ہی سمجھ آ جاتا ہے لیکن بہت سے کم پڑھے لکھے لوگ، پیغام کو پڑھنے والے سے سوال کر کے مزید تشریح چاہتے ہیں۔یہ مزید تشریح پیغام پڑھنے والے  اپنے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ تشریح ہوتی ہے ، اصل پیغام نہیں۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے   اللہ کے پیغام کو انہی الہامی  الفاظ میں پہنچایا، فوراً لکھوایا اور دوسروں کو حفظ کرایا۔ اس کے بعد جو کھول کھول کر بیان کیا تو ان لوگوں کے لیے تھا، جو کم پڑھے لکھے تھے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود بھی کم پڑھے لکھے تھے تو اس کا جواب اللہ نے قران میں ہی  سورۃ 75 آیت 16 تا 19 میں ہے کہ قران کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پڑھانا اور سمجھانا، سب اللہ کے ذمے ہے۔

فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [١٠:٩٤]

ترجمہ: اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے، لہٰذا تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قران کی تصدیق سابقہ الہامی کتابوں توریت اور زبور اور انجیل سے کی جا سکتی ہے۔ یہ انہی کا تسلسل ہے۔ اس میں الفاظ کے الہامی اور انسانی ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔

وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا [١٨:٢٧]

ترجمہ: اور اپنے رب کی کتاب سے جو تیری طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کرو اس کی باتوں کوکوئی بدلنے والا نہیں ہے اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا

یہ آیت تو میرے موقف کی تائید کرتی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ  نے وحی کیا ہے، اسے ہی پڑھنا ہے، اس کو بدلنے والا چاہے نبی بھی ہو تو اس کے لیے پناہ کی کوئی جگہ نہیں۔

وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ [٢٩:٤٨]

ترجمہ: (اے نبیؐ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے

یہ آیت اس بات کا جواب ہے کہ جو کچھ کتاب میں ہے اس کے الفاظ الہامی ہیں۔ یہ آیت بھی میرے موقف کی تائید کرتی ہے۔ یعنی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہلے سے پڑھے لکھے ہوتے تو  کافروں کی بات درست ہو سکتی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس قران کو خود لکھتےہیں۔

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا [١٩:٩٧]

ترجمہ: پس اے محمدؐ، اِس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو

اس آیت میں ہے کہ ”ہم نے آسان کر کے“ یعنی الفاظ کو آسان کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ان آسان کو مزید آسان کیسے کیا جا سکتا تھا؟ ہاں تشریح کی جا سکتی تھی، جو عمل کی صورت میں کی گئی اور یہ عمل روایات کی صورت میں ہم تک پہنچا، جس میں مختلف لوگوں نے ملاوٹ بھی کی ہے لیکن تو اتر ہم تک کسی نہ کسی حد تک پہنچا ہے۔

جب اللہ کے رسول ہی کہہ رہے ہیں کہ خدا کے الفاظ ہیں تو ہم کیوں اللہ کے رسول کے انسانی الفاظ بنانے پر تلےہیں؟

مزید مثال دیکھ لیں کہ جیسے بچے بڑوں سے تقریر لکھوا کر لے جاتےہیں۔ تقریر کرتے ہوئے سب الفاظ بچے ہی ادا کرتے ہیں لیکن کیا وہ ان کے الفاظ ہوتےہیں؟ بول وہی رہے ہوتےہیں لیکن الفاظ کسی اور کے ہوتے ہیں۔ہاں ہم تقریر ایسے لکھ دیتے ہیں کہ وہ لگے جیسے بچے کےالفاظ ہیں لیکن قران تو ایسے لکھا ہےکہ جیسے اللہ کے الفاظ کوئی اور ادا کر رہا ہے۔

سب سے حتمی بات قران میں چار بار ”قُل“ کا لفظ لکھا ہوا آیا ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے ان الفاظ کے بارے میں بھی بتایا کہ یہ اللہ کا ہی فرمایا ہوا ہے۔قران کے الفاظ کو انسانی الفاظ کہنے والا خود سوچ بچار کے بعد Say, my name is ABC. کے ان الفاظ کو جو میرے الفاظ ہیں، اپنے الفاظ میں بیان کر کے دکھائے ؟

یہ تحریریں بھی اپ کو پسند آئیں گی

Comments are closed.