مقروض اور خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ
طارق جمیل صاحب کے صاحبزادے کی حادثاتی وفات پر آج بہت سے مولاناؤں کی تحریریں پڑھی۔ ایک ظالم نے تو مولانا طارق جمیل صاحب کو مشورہ دیا ہوا تھا کہ مولانا اپنے بیٹے کی نماز جنازہ مت پڑھیں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔
اس حوالے کچھ فتاؤی جات بھی شیئر کیے گئے تھے، جن میں درج تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقروض اور خودکومارنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی بلکہ صحابہ کو کہا تھا کہ وہ پڑھ لیں اور پڑھا دیں۔اسی سے اخذ کر کے علماء نے فتویٰ دیا ہوا ہے کہ آج بھی اس طرح کی صورتحال ہو تو عوام تو نماز جنازہ پڑھ لے لیکن علماء کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجوہات کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ان کاموں کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ چاہتے ہو کہ اس وجہ سے کوئی شخص مقروض میت کا قرض اتارنے کا ذمہ لے اور اس طرح مرحوم کے خاندان پر بوجھ نہ پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو ہلاکت میں ڈالنے والے کی حوصلہ شکنی کی وجہ ایسا کرتے ہوں۔ لیکن جو کچھ بھی ہے کیا کبھی ایسا ہوا کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو کہا ہو کہ مقروض یا خود کو مارنے والے کی نماز جنازہ آپ پڑھ دیں اور کسی نے صرف اس وجہ سے انکار کیا ہو کہ یا رسول اللہ آپ نہیں پڑھتے تو ہم کیوں پڑھیں؟ ظاہر بات ہے کسی نے نہیں کہا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد زمین پر امت کے بہترین افراد نے مقروض اور خود کو مارنے والوں کی نماز جنازہ پڑھی تو آج کے دور کے علماء کی کیا بساط جو کہتے ہیں کہ عوام پڑھے لیکن علماء نہ پڑھے؟
آج کے دور میں اس طرح کی بات کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا آپ کا رتبہ نعوذ باللہ صحابہ کرام سے بھی بڑا ہے؟
اس طرح کر کے وہ خود کو کس سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ وہ صحابہ کے اسوہ پر کیوں نہیں چلتے کہ ہر مقروض اور خود کو مارنے والے کی نماز پڑھیں؟ جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
میں تو حیران ہوتا ہوں ایسے علماء کی جسارت پر۔ ایسی صورتحال میں انہوں نے خود کو صحابہ کرام سے کیوں نہیں ملایا۔
Comments are closed.