عہد الست
عہدالست کا ذکرسورۃ الاعراف کی آیت 172 سے 174 تک میں آیا ہے۔اس عہد کے بارے میں لوگوں کی اکثریت کا یقین ہے کہ یہ عہد انسانوں کی روحوں سے اُن کی پیدائش سے پہلے لیا گیا تھا، جسے اب سب کی یاداشت سے محو کر دیا گیا ہےاور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسی عہد کی بنیاد پرلوگوں کو جواب دہ ٹھہرائیں گے۔اس حوالے سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے کچھ اس طرح اپنا استدلال پیش کیا ہے۔
”(اے [563] پیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے [564] اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، ( آپ ہی ہمارے رب ہیں )، ہم اِس کی گواہی دیتے [565] ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے۔٭یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں [566] گے؟ ٭ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو [567] اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔ـ٭“(سورۃ الاعراف (7) 172تا174)
نوٹ: اس مضمون میں درج کی گئی تمام قرانی آیات کا ترجمہ جناب جاوید احمد غامدی کی تفسیر القران ”البیان“ سے لیا گیا ہے۔
غامدی صاحب درج بالا آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”563 زمین پر خدا کی دینونت کے واقعات سے استدلال کے بعد اب یہ قریش کو اُس عہدفطرت کی یاددہانی کرائی ہے جس کی بنیاد پر تمام بنی آدم قیامت کے دن مسؤل ٹھیرائے جائیں گے اور خدا کی بارگاہ میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکے گا کہ اُسے کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی یا اُس نے شرک اور الحاد کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی اور خدا کے اقرار اور اُس کی توحید کے تصور تک پہنچنا اُس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ قرآن نے اِس عہد کو جس طریقے سے پیش کیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ یہ محض تمثیلی انداز بیان نہیں ہے، بلکہ اُسی طرح کے ایک واقعے کا بیان ہے جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں۔ اِس سے یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ خالق کا اقرار مخلوقات کی فطرت ہے۔ وہ اپنے وجود ہی سے تقاضا کرتی ہیں کہ خالق کی محتاج ہیں۔ اُن کے لیے خالق کا اثبات پیش نظر ہو تو کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف متنبہ کرنے اور توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انسان بعض اوقات انکار کر دیتا ہے۔ لیکن یہ محض مکابرت ہے، لہٰذا جس وقت انکار کرتا ہے، عین اُسی وقت اپنے دائرئہ علم میں ہر انفعال کے لیے فاعل، ہر ارادے کے لیے مرید، ہر صفت کے لیے موصوف، ہر اثر کے لیے موثر اور ہر نظم کے لیے ایک علیم و حکیم ناظم کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ اُس کا تمام علم اِسی سرگردانی کی سرگذشت ہے۔ یہ عمل کی تکذیب ہے جو اُس کے انکار کی حقیقت بالکل آخری درجے میں واضح کر دیتی ہے۔
564 اصل الفاظ ہیں: ’مِنْ م بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِھِمْ‘۔ ’مِنْ ظُہُوْرِھِمْ‘’مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ‘ سے بدل واقع ہوا ہے۔ اِس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ یہ واقعہ کسی خاص دور ہی کے بنی آدم سے متعلق نہیں ہے، بلکہ قیامت کے دن تک جتنے بنی آدم بھی پیدا ہونے والے ہیں، اُن سب سے متعلق ہے اور ارواح کے اجسام کے ساتھ اتصال کی ابتدا سے پہلے ہوا ہے۔
565 انسان کو اِس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اِس لیے یہ واقعہ تو اُس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت اُس کے صفحۂ قلب پر نقش اور اُس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے۔ اِسے کوئی چیز بھی محو نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اُسے یاد دلایا جائے تو وہ اِس کی طرف اِس طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے، دراں حالیکہ اُس نے کبھی اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اِس یقین کے ساتھ لپکتا ہے، جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اُس کو جانتا تھا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا یہ اقرار اُس کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب تھا جو اُس کے اندر ہی موجود تھا۔ اُس نے اِسے پا لیا ہے تو اُس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اِس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پا لی ہے۔
566 یعنی جہاں تک توحید اور بدیہیات فطرت کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں مجرد اِس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیاجائے گا۔ اُن سے انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہوگا کہ اُسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی یا اُس نے یہ انحراف خارجی اثرات کے نتیجے میں اختیار کیا تھا اور اِس کے ذمہ دار اُس کے باپ دادا اور اُس کا ماحول ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔
567 یعنی مزید حجت جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی اُن کا مواخذہ ہو گا اور آخرت کے لحاظ سے بھی اُن کی مسؤلیت دوچندہو جائے گی، ورنہ اصلاً تو یہ حجت، جیسا کہ بیان ہوا، اُس علم سے قائم ہو جاتی ہے جو انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ آیات الٰہی کی تفصیل سے اِسی علم کی یاددہانی ہوتی ہے۔ قرآن مجید اِسی بنا پر اپنے لیے ’ذِکْر‘ اور ’ذِکْرٰی‘ اور رسولوں کے لیے ’مُذَکِّر‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔“
مجھے عہد الست کے حوالے سے غامدی صاحب اور دیگر لوگوں کے اس مروجہ موقف سے اختلا ف ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اگر اس رائج مفہوم پر یقین کیا جائےتو اس مفہوم اور دوسری اسلامی تعلیمات میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے میرے دلائل درج ذیل ہیں:۔
دلیل نمبر ایک
ایک مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں کوئی مسلمان شخص حادثے کی وجہ سے پاگل ہوجائے یاد داشت کھو بیٹھے اور پھراسی حالت میں دوسروں کی دیکھا دیکھی بتوں کو پوجنے لگے، شرک کرنے لگے یا کوئی اسے شرک پر لگا دے اور عقل نہ ہونے کی وجہ سے وہ لگ بھی جائے، چند دنوں بعد وہ فوت بھی ہو جائے تو کیا وہ ایمان پر فوت ہوا یا مشرک کی حیثیت سے فوت ہوا؟ میں نے جن سے بھی یہ سوال پوچھا سب کا جواب یہی تھا کہ وہ شخص مومن فوت ہوا کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ الخطا۔ والنسیان وما استکرھوا علیہ۔یعنی میری امت کو خطا بھول چوک اور جبر سے کرائے گئے گناہ پر کوئی گرفت نہیں۔غامدی صاحب خود بھی اپنے ایک ویڈیو لیکچر(بعنوان:کیا سائنس نے مذہب کے مقدمے کو شکست دے دی ہے) میں بیان کرتے ہیں کہ جب آدمی پاگل ہو جائے تو دین اس سے متعلق ہی نہیں رہتا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جب انسان کے پاگل ہونے پر یا یاداشت کھو جانے پر وہ دین کے حوالے سے جواب دہ نہیں تو اسے ایک ایسے عہد پر کیسے جواب دہ ٹھہرایا جا سکتا ہے، جس کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہی نہیں۔
اس کے علاوہ مجذوب افراد جیسے دولے شاہ کے چوہوں کو سبز رنگ کے کپڑے پہنا کر مزار پر بٹھا دیں تو وہ مسلمان ہیں۔ایسے لوگوں کو کسی مندر پر بٹھا دیں تو وہاں بھی انہیں شعور نہیں ہوگا کہ وہ شرک کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ کس طرح عہد الست کے حوالے سے جواب دہ ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی عالم دین سے مسئلہ پوچھیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ مجذوب افراد بغیر حساب کتاب جنت میں جائیں گے۔
دلیل نمبر دو
اس دنیا میں ہوش مند انسان جب رمضان میں روزہ رکھتے ہیں تو کئی بار بھول چوک سے کھا پی لیتے ہیں۔ علمائے کرام تو تلقین کرتے ہیں کہ اگر کوئی بزرگ روزے کے دوران بھول چوک سے کچھ کھا رہا ہےتو دوسرے لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اسے منع نہ کریں بلکہ کھانے دیں اور جب وہ کھا لے تو اسے پھر یاد کرائیں۔ روزے جیسی عبادت میں اللہ تعالیٰ بھول چوک کا گناہ معاف کر دیتے ہیں تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ انسانوں کو ایک ایسے عہد پر جواب دہ ٹھہرایں جس کے بارے میں انسان کچھ جانتا ہی نہیں۔بہت سے علماء کے مطابق اسلام لانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص جہالت یا لاعلمی کی وجہ سے کوئی ایسا عمل کرے جس پر شرک کا گمان ہوتا ہو تو اس سے بھی وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔
دلیل نمبر تین
اگرعہد الست ہوا تھا توپھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں رسولوں کو کیوں بھیجا؟ اگر عہد الست کی بنیاد پر غیر مسلم یا وہ لوگ جن تک رسولوں کی تعلیمات نہیں پہنچی، کو جواب دہ ٹھہرایا جا سکتا ہے تو پھر اس عہد سے تمام دنیا کے لوگوں کو ہی جواب دہ ٹھہرادیا جاتا۔
دلیل نمبرچار
غامدی صاحب لکھتے ہیں
”566 یعنی جہاں تک توحید اور بدیہیات فطرت کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں مجرد اِس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیاجائے گا۔ اُن سے انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہوگا کہ اُسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی یا اُس نے یہ انحراف خارجی اثرات کے نتیجے میں اختیار کیا تھا اور اِس کے ذمہ دار اُس کے باپ دادا اور اُس کا ماحول ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔“
یعنی اس عہد کے بعد قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنے شرک کے لیے اپنے باپ دادا کی روش کو جواز نہیں بنا سکےگا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بچے کمرعمری میں بھی فوت ہوتے ہیں۔اب آخرت میں مشرک بچے کے پاس اس کے علاوہ کیا جواب ہوگا کہ اُس کے باپ دادا شرک کرتے تھے، اس لیے وہ بھی شرک کرنے لگا۔ ایسے بچوں کو کس طرح کسی عہد الست کا پابند ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا غامدی صاحب یا اس مروجہ موقف کے حامی کسی شخص نے عمر کی وہ حد بتائی ہے، جس تک وفات سے پہلے اس عہدالست کے بارے سوال نہیں کیا جائے گا؟
دلیل نمبر پانچ
قران کریم کی آیت ہے کہ
”یہ کہیں گے: اے ہمارے رب، تو نے ہم کو دوبار موت اور دوبار زندگی دی، سو (مر کر جی اٹھنے کے بارے میں تو اب کوئی شبہ نہیں رہا، چنانچہ) ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تو کیا یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟“ (سورۃ المومن / 40:11)
دو بار زندگی کی تشریح میں غامدی صاحب لکھتے ہیں ”دوبار موت اور دوبار زندگی‘ سے مراد وہی چیز ہے جس کا ذکر سورۂ بقرہ (2) کی آیت28 میں کیا گیا ہے کہ تم اللہ کے منکر کس طرح ہوتے ہو، دراں حالیکہ تم مردہ تھے تو اُس نے تمھیں زندگی عطا فرمائی، پھر وہی مارتا ہے، اِس کے بعد زندہ بھی وہی کرے گا۔ پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“
اگر عہد الست کے مروجہ مفہوم پر یقین رکھا جائے تو پھر یہ دوبارموت اور دوبارزندگی نہیں بلکہ تین بار موت اور تین بار زندگی ہوا۔ اگر آپ اس بات کا جواب یہ دیتےہیں کہ پیدائش سے پہلے کی عالم ارواح کی زندگی کو پیدائش اور موت کی گنتی میں شمار نہیں کیا جا سکتا تو عہد الست کی آیت کو دوبارہ پڑھ لیں۔
”(اے پیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، ( آپ ہی ہمارے رب ہیں )، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے۔“(سورۃ الاعراف / 7:172)
آیت میں” جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا“ کے الفاظ آئے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ بنی آدم کی نسل کی پشتوں سے پیدائش کا عمل تو اس دنیا کا ہے۔ اس طریقے یعنی پشتوں سے نکلنے والے پانی سے اس ہمارے مادی جسم کی پیدائش ہوتی ہے، جس کا ذکر قران پاک میں اِن الفاظ میں کیا گیاہے
”اچھا تو انسان ذرا یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔٭اچھلتے پانی سے٭جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔٭“ (سورۃ الطارق / 86:5تا7)
سورۃ الطارق کی آیات 5 تا7 بھی اسی حقیقت کوبیان کر رہی ہیں کہ عہد الست کی آیت میں جو واقعہ بلکہ واقعات ہیں، وہ اسی دنیا سے متعلق ہیں۔اگر انسانوں کی پیدائش سے پہلے روحوں کی پیدائش بھی انسانوں کی پشت سے ہوئی توپھر ایک کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے۔ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ بدکار لوگ اپنی محرمات سے ہی بدکاری کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں اولاد بھی پیدا ہوجاتی ہے، جس کے بارے میں خبریں بھی آتی رہتی ہے۔ اب اس دنیا میں کوئی شخص اپنی محرم کی اولاد کا باپ ہے تو کیا وہ روحانی دنیا میں بھی اسی محرم کی اولاد کا باپ تھا؟اگر تھا تو اس دنیا میں وہ گناہ گار کیونکر ہوا کیونکہ یہ تو پہلے سے ہی طے تھا؟ مجھے اتنا یقین ہے کہ اگر کوئی روحانی دنیا تھی تو اس میں اللہ تعالیٰ نے محرمات سے بدکاری کرنے والوں کی پیدا ہونےو الی اولاد سے اُن کا رشتہ نہیں بنایا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ خود ایسا کام کیسے کر سکتے ہیں، جسے وہ دنیا والوں کے لیےحرام کریں۔
دلیل نمبر چھ
قران کریم میں قیامت کے جو بھی مناظر بیان ہوئے ہیں ان میں کسی ایک میں بھی اللہ تعالیٰ نے عہد الست کے حوالے سے کسی سے پوچھ گچھ نہیں کی۔ قیامت کے کسی منظر میں اس کا ذکر نہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ جس عہد پرتمام غیرمسلموں کی ازلی جنت اور دوزخ کا انحصار ہو، اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ایک آیت میں اس طرح مہمل انداز میں کریں اور کسی دوسری آیت میں نہ کریں۔
دلیل نمبر سات
سورۃ الاعراف کی آیت 172 میں بنی آدم کا ذکر آیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس عالم ارواح میں یہ عہدوپیمان ہوئے، کیا وہاں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ سلام کی ارواح موجود نہیں تھیں؟ اگر سب سے عہد لیا تو اِن دونوں سے عہد کیوں نہیں لیا؟ صرف بنی آدم سے کیوں لیا؟
اس کی وجہ یہی ہے کہ جو بھی عہد و پیمان ہوئے، اس مادی دنیا میں ہوئے ہیں۔ اگر عالم ارواح میں ہوئے ہوتے تو بنی آدم کی اولادوں کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جاتا، جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ السلام کی ارواح بھی شامل ہوتیں۔
دلیل نمبر آٹھ
اگر عالم ارواح میں ہماری روحیں اتنی عقل مند تھیں کہ اللہ کی واحدانیت کے بارے میں عہد و پیمان کر سکیں تو پھر ہمارے پیدا ہوتے ہی، ہماری روح سلیٹ کی طرح صاف کیوں ہوتی ہے؟ اسے بچپن میں کیوں ایک ایک لفظ سکھانا پڑتا ہے؟ عقائد سکھانے پڑتے ہیں؟ حالانکہ جب ہم وفات پا کر قیامت میں زندہ ہونگے تو ہماری روحانی حالت بالکل اس سطح پر ہوگی، جس وقت ہم نے وفات پائی ہوگی۔
دلیل نمبر نو
عہد الست کے عالم ارواح میں وقوع پذیر ہونے کے حوالے سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہمیں تو اپنی اس دنیاوی زندگی کی پیدائش کا واقعہ بھی یاد نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا، اسی طرح عہد الست یاد نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعہ نہیں ہوا۔
اس پر عرض ہے کہ اگر ہمیں اس دنیا وی زندگی میں اپنی پیدائش کا واقعہ یاد نہیں تو ہمیں اپنی دنیاوی زندگی کے ابتدائی سالوں کے ایسے بہت سے واقعات یاد نہیں، جن میں ہم نے کسی دوسرے بچے کو مارا تھا، کسی کا نقصان کیا تھا یا جھوٹ بولا تھا۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں لاعلمی میں کیے گئے ”گناہوں“ کی سزا ہمیں قیامت میں نہیں ملے۔ جب اس دنیا میں لاعلمی میں کیے گئے گناہوں کی سزا ہمیں نہیں ملے گی تو اللہ تعالیٰ کیسے کسی ایسے عہد پر ہمارا یا کسی کا بھی مواخذہ کر سکتے ہیں، جوکسی کو یاد ہی نہیں؟ اگر کسی ہندو سے پوچھا جائے کہ اسے اپنے پچھلے جنموں کی باتیں کیوں یاد نہیں تو اس کا جواب بھی بالکل یہی ہوتا ہے کہ ہمیں تو اپنے زمانہ شیرخواری کی باتیں بھی یاد نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کبھی بچے نہیں تھے۔
اب سوال پیداہوتا ہے کہ اگر سورۃ الاعراف کی آیت 172 میں مذکور عہد الست اگر پیدائش سے پہلے روحوں سے لیا گیا عہد نہیں تو اس کی حقیقت کیا ہے؟ سورۃ الاعراف کی آیت 172 کو سمجھنے سے پہلےاس سے پچھلی آیت کو دیکھنا ضروری ہے۔اس سےپچھلی آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ایک گروہ بنی اسرائیل سے عہد لینے کا تذکرہ کیا ہے۔
(اُنھیں یاد بھی ہے)، جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر اُن کے اوپر معلق کر دیا تھا گویا وہ سائبان ہے اور وہ گمان کر رہے تھے کہ وہ اُن پر گرا ہی چاہتا ہے۔ (فرمایا): یہ جوکچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو اور جو کچھ اِس میں (لکھا) ہے، اُسے یاد رکھو تاکہ (خدا کے غضب سے) بچے رہو۔“(سورۃ الاعراف / 7:171)
اس آیت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل بائبل میں خروج باب 19 سے24 تک میں بھی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر لوگوں کو تفصیلی احکامات دئیے اور اُن سے عہد و پیمان کیے۔بائبل میں اس واقعے میں کچھ تحریفات ہوئیں ہیں لیکن قران کریم نے اُن کی تصیح بھی کر دی ہے۔یہ ذکر قران کریم میں دوسرے مقامات پر بھی آیا ہے۔
”(قرآن تمھارے لیے یہی ہدایت لے کر آیاہے، اِس لیے) اے بنی اسرائیل،میری اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی اور میرے عہد کو پورا کرو، میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو،“ (سورۃ البقرۃ / 2:40)
”اور یاد کرو،جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا اور (اِس کے لیے) طور کو تم پر اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ اُس چیز کوپوری قوت کے ساتھ پکڑو جو ہم نے تمھیں دی ہے، اور جو کچھ اُس میں (لکھا) ہے، اُسے یاد رکھو تاکہ تم (اللہ کے غضب سے) بچے رہو۔“(سورۃ البقرۃ / 2:63)
”اور یاد کرو ،جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ اورقرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ اور عہد لیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز کا اہتمام کرواور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر تم میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب (اُس سے) پھر گئے اور حقیقت یہ ہے کہ تم پھر جانے والے لوگ ہی ہو۔“ (سورۃ البقرۃ / 2:83)
”اور یاد کرو، جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں خون نہ بہاؤ گے اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔ پھر تم نے اقرار کیا اور تم اُس کے گواہ ہو۔“ (سورۃ البقرۃ / 2:84)
”اور یاد کرو، جب ہم نے تم سے عہد لیا اور (اِس کے لیے) طور کو تم پر اٹھا دیا اور حکم دیا کہ یہ جو کچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو، اور سنو (اور مانو) تو (تمھارے بزرگوں نے جو رویہ اُس کے ساتھ اختیار کیا، اُس نے بتا دیا کہ) اُنھوں نے (گویا اُس وقت یہی) کہا کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا۔ اور اُن کے اِس کفر کے باعث وہ بچھڑااُن کے دلوں میں بسا دیا گیا۔اِن سے پوچھو، اگر تم ماننے والے ہو توکیا ہی بری ہیں یہ باتیں جو تمھارا یہ ایمان تمھیں سکھاتا ہے!“(سورۃ البقرۃ / 2:93)
”اور ہم نے طور کو اِن پر اٹھا لیا تھا، اِن سے عہد کے ساتھ اور اِن کو حکم دیا تھا کہ (شہر کے) دروازے میں سر جھکائے ہوئے داخل ہوں اور اِن سے کہا تھا کہ سبت کے معاملے میں نافرمانی نہ کرنا اور (اِن سب چیزوں پر) ہم نے اِن سے پختہ عہد لیا تھا۔“ (سورۃ النساء / 4:154)
”(اِس رعایت سے فائدہ اٹھاؤ) اور اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کو یاد رکھو اور اُس کے اُس عہد و میثاق کو بھی جو اُس نے تم سے ٹھیرایا تھا، جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم فرماں بردار ہیں، (اِسے یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو، اِس لیے کہ اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔“(سورۃ المائدہ / 5:7)
اللہ کی یہ نعمت دین اسلام ہے۔اس سے چند آیات پہلے یعنی سورۃ المائدہ کی آیت 3 میں ہی نعمت تمام کرنے کاذکر ہے۔
”اللہ نے اِسی طرح بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا تھا اور (اُس کی نگرانی کے لیے) ہم نے اُن میں سے بارہ نقیب اُن پر مقرر کیے تھے اوراللہ نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں کو مانا اور اُن کی مدد کی اور اللہ، (اپنے پروردگار) کو قرض دیتے رہے، اچھا قرض تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں تم سے دور کردوں گا اور تمھیں ضرور ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پھر اِس (عہد و میثاق) کے بعد بھی جو تم میں سے منکر ہوں تو اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔“ (سورۃ المائدہ / 5:12)
میری سمجھ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی آیت 171 میں تو بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے عہد کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس سے اگلی آیت یعنی سورۃ الاعراف کی آیت 172 میں ہی بتادیا کہ اللہ تعالیٰ یہ عہد بنی اسرائیل سے ہی نہیں بلکہ اُن سے پہلےیا بعد میں یا دنیا کی دیگر اقوام سے بھی ایسے عہد لے چکا ہے،جس کی وجہ سے یہاں بنی آدم کی اولادوں کے الفاظ آئے ہیں۔ ان تمام عہدوپیمان کا تذکرہ قران کریم کی دیگر بہت سی آیات میں ہیں۔ ان آیات میں لوگ اپنے باپ دادا کی روش کو ہی اپنے شرک کی وجہ قرار دے رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں سورۃ الاعراف کی آیت 172 کے ذریعے ہی بتا رہا ہے کہ انبیائے کرام کی دعوت کے بعد کوئی شخص اپنے شرک کے گناہ کو اپنے باپ دادا کی تقلید نہ بتائے۔ یاد رہے کہ ان آیات میں یہ جواب لوگ اللہ کے نبیوں کو ہی دے رہے ہیں۔ انبیاء کا اُن کا دعوت پہنچانا اُن کے لیے حجت ہے، اس کے جواب میں وہ بے شک اپنے شرک کی وجہ اپنے باپ دادا کی روش کو بتائیں لیکن پھر وہ قیامت کے دن خود تک رسولوں کی دعوت پہنچنے کا اقرار نہیں کر سکیں گے۔یعنی انہیں قیامت میں یہی باتیں یاد دلا کر کہا جائے گا کہ جب امت کا نبی تمہیں دعوت دے رہا تھا تو تم اپنے باپ دادا کے دین پر عمل کرنے کی باتیں کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ تو ان آیات میں فرما رہا ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعے ہی لوگوں کو ڈرا رہا ہے تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے تھے۔ایسی آیات درج ذیل ہیں۔
”اور اِنھیں یاد دلاؤ، جب اللہ نے نبیوں کے بارے میں (اِن سے) عہد لیا کہ میں نے جو شریعت اور حکمت تمھیں عطا فرمائی ہے، پھر تمھارے پاس کوئی رسول اُس کی تصدیق کرتے ہوئے آئے جو تمھارے پاس موجود ہے تو تم اُس پرضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور اُس کی مدد کرو گے۔ اِس کے بعد پوچھا: کیا تم نے اقرار کیا اور اِس پر میرے عہد کی ذمہ داری اٹھا لی ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ پھر گواہ رہو اور میں بھی تمھار ے ساتھ گواہ ہوں۔“ (سورۃ آل عمران / 3:81)
”اور اُن لوگوں کو جنھیں کتاب دی گئی، اُن کا وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے اُن سے لیا تھا کہ تم لوگوں کے سامنے اِس کتاب کو لازماً بیان کرو گے اور اِسے ہرگز نہ چھپاؤ گے۔ پھر اُنھوں نے اِسے پس پشت ڈال دیا اور اِس کے بدلے میں بہت تھوڑی قیمت لے لی۔ سو کیا ہی بری ہے وہ چیز جسے یہ خرید لائے ہیں۔“(سورۃ آل عمران / 3:187)
”یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے (شریعت کی پابندی کا) عہد لیا اور (اُس کی یاددہانی کے لیے) بہت سے پیغمبر اُن کی طرف بھیجے، (مگر ہوا یہ کہ) جب کبھی کوئی پیغمبر اُن کی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لے کر اُن کے پاس آیا تو کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرتے رہے۔“ (سورۃ المائدہ / 5:70)
”اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ اتارا ہے، اُس کی طرف آؤ اور اللہ کے رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی جب کہ اُن کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ راہ ہدایت پر رہے ہوں؟“ (سورۃ المائدہ / 5:104)
”(اِس کے جواب میں) یہ مشرک اب کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے۔ اُن لوگوں نے بھی اِسی طرح جھٹلایا تھا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں، یہاں تک کہ اُنھوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ اِن سے پوچھو، تمھارے پاس کوئی علم ہے کہ ہمارے سامنے اُسے پیش کرسکو؟ (حقیقت یہ ہے کہ) تم محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو۔“ (سورۃ الانعام / 6:148)
”(یہ اِسی رفاقت کا نتیجہ ہے، اے پیغمبر کہ تمھاری قوم کے) یہ لوگ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریقے پر پایا ہے اور خدا نے ہمیں اِسی کا حکم دیا ہے۔ اِن سے کہو، اللہ کبھی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ پر افترا کرکے ایسی باتیں کہتے ہو جنھیں تم نہیں جانتے؟“ (سورۃ الاعراف / 7:28)
مخاطبین سے اب آخرت میں شرمناک کاموں کے بارے میں جوابدہی ہوگی کہ تمہارے لیے اس آیت میں بتا دیا گیا تھا۔
”اُنھوں نے جواب دیا: کیاہمارے پاس اِس لیے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا کی عبادت کریں اور اُنھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟ یہی بات ہے تو جس عذاب کی دھمکی ہمیں سنا رہے ہو، اُسے ہم پرلے آؤ، اگر تم سچے ہو۔“ (سورۃ الاعراف / 7:70)
اس آیت میں بھی یہ قوم اللہ تعالیٰ کے نبی سے مخاطب ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ اس قوم پر بھی بنی آدم کی پشتوں سے نکالے ہوئے نبی کو بھیجا ہے۔یعنی اب نبی آنے کے بعد شرک کے جرم میں اسی قوم کو پکڑا جائے گا۔
”اُنھوں نے جواب دیا: اے صالح، اِس سے پہلے تو ہمارے اندر تم سے بڑی امیدیں کی جاتی تھیں۔ (لیکن تم اچھے نکلے)! کیااب ہمیں اُن معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتے ہو جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں؟ ہم تو اُس چیز کے باعث جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو، بڑے سخت شبہے میں ہیں جس نے خلجان میں ڈال دیا ہے۔“(سورۃ ھود / 11:62)
اس آیت میں بھی اس قوم کا حساب حضرت صالح کے متنبہ کرنے پر لیا جائے گا کسی عہد الست پر نہیں
”اُنھوں نے جواب دیا:اے شعیب، کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کو چھوڑ دیں جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے یا اپنے مال میں ہم اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں ؟ (تمھاری نگاہ میں سب اگلے پچھلے بے وقوف اور گم راہ تھے اور ہمارے اندر) بس تمھی ایک دانش مند اور راست باز آدمی رہ گئے ہو!“(سورۃ ھود / 11:87)
اس آیت میں بھی اس قوم پر گواہ شعیب علیہ السلام ہونگے۔
”یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اُس کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کرتے، نہ ہم نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ اُس کی ہدایت کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے۔ اِن سے پہلے والوں نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تھا۔ سو رسولوں پر تو صاف صاف پہنچا دینے ہی کی ذمہ داری ہے۔“(سورۃ النحل / 16:35)
”یہ اُس دن کا دھیان کریں، جس دن وہ اِنھیں اکٹھا کرے گا اور اُن کو بھی جنھیں یہ خدا کے سوا پوجتے ہیں، پھر اُن سے پوچھے گا: کیا تم نے میرے اِن بندوں کو گم راہ کیا تھا یا یہ خود ہی راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟٭وہ جواب دیں گے کہ پاک ہے تیری ذات، ہمیں یہ حق بھی کہاں تھا کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو کارساز بنائیں! مگر ہوا یہ کہ تو نے اِن کو اور اِن کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا، یہاں تک کہ وہ تیری یاددہانی بھلا بیٹھے اور ایسے لوگ بن گئے جو برباد ہو کر رہے۔ ـ٭یہ لو، اِنھوں نے تو جو تم کہتے تھے، اُس میں تمھیں جھوٹا ٹھیرا دیا۔ سو اب نہ اپنی شامت کو ٹال سکو گے نہ اپنی کوئی مدد کر سکو گے اور تم میں سے جو بھی ظلم کے مرتکب ہوں گے، اُنھیں ہم ایک بڑا عذاب چکھائیں گے۔٭“ (سورۃالفرقان / 25:17تا19)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ قیامت کے مناظر کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ یہ لوگوں اور جن کو وہ پوجتے تھے،وہ اپنے بھٹکنے کی وجہ دنیا کے سازوسامان کو بتا رہے ہیں۔اگر پیدائش سے پہلے کوئی عہد ہوا ہوتا تو یہاں تو مشرک لوگ یا اللہ تعالیٰ وہ بیان کرتے۔
”(تم اِس کی پیروی کرو، اے پیغمبر)، اور یاد رکھو، جب ہم نے سب نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا (کہ ہمارا پیغام بے کم و کاست پہنچا دو)۔“ (سورۃ الاحزاب / 33:7)
”اِسی طرح، اے پیغمبر، جب مسلمان عورتیں بیعت کے لیے تمھارے پاس آئیں (اور عہد کریں) کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور چوری نہ کریں گی اور زنا نہ کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اور اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور بھلائی کے کسی معاملے میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی تو اُن سے بیعت لے لو اور اُن کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔ بے شک، اللہ غفور و رحیم ہے۔“(سورۃ الممتحنہ / 60:12)
اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنے کا عہد اس دنیا میں ہو رہا ہے۔ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ سکتے تھے کہ عہد الست ہی بہت ہے۔اس آیت میں جن چیزوں کے متعلق عہد لیا گیا ہے، یہ وہی باتیں تو ہیں، جن کے بارے میں بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا گیا تھا۔جس کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت 171 میں آیا ہے۔اس عہد کے بعد بیعت کرنے والے شرک کرنے پر اپنے باپ دادا کے شرک کو بھی درمیان میں نہیں لا سکتے۔اس قرآنی آیت کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوںکو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
”لوگو! قیامت کے دن خدا میری نسبت پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا‘‘۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا۔’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘۔ ’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘۔” اے خدا تو گواہ رہنا “اور اس کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔
درج بالا تمام آیات میں لوگوں سے دنیا میں ہی عہد و پیمان ہو رہے ہیں۔قران کریم میں اس کے علاوہ درجن سے زیادہ آیات ہیں جن میں لوگ رسولوں کی تبلیغ کے جواب میں اپنے باپ دادا کی تقلیدکو ترجیح دینے کا کہہ رہےہیں۔اس سب آیات میں بنی آدم میں سے بھیجے ہوئے انبیاء ہی تو لوگوں کو خبردار کر رہے لیکن اس کے باوجود لوگ اپنے باپ دادا کے شرک کا جواز سامنے لا رہے ہیں۔ ان لوگوں سے رسولوں کا مخاطب ہونا ہی ان تک اللہ کا پیغام پہنچنا یا اتمام حجت ہے، جس کے بعد قیامت کے دن وہ باپ دادا کی مثال پیش نہیں کر سکیںگے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عہد الست نہیں ہوا تو پھر جن لوگوں کو اللہ کا کلام نہیں پہنچا تواللہ تعالیٰ انہیں کس طرح جواب دہ ٹھہرائیں گے؟ اس سوال کے جواب کے لیے قرآن کریم سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔
”(سو جزا و سزا کا قانون بالکل بے لاگ ہے، اِس لیے) وہ [160] لوگ جو (نبی امی پر) ایمان لائے ہیں اور جو (اِن سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو نصاریٰ اور صابی کہلاتے ہیں، اُن میں سے جن لوگوں نے بھی اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کو مانا ہے اور نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے اُن کا صلہ اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور (اُس کے حضور میں) اُن کے لیے نہ کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں [164] گے۔“(سورۃ البقرۃ / 2:62)
ان آیات کی تشریح میں غامدی صاحب لکھتے ہیں۔
160 آیت 40 سے جو مضمون شروع ہوا تھا، یہ اُس کے خاتمہ کی آیت ہے۔ اِس میں قرآن نے نہایت غیر مبہم طریقے پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کو فلاح محض اِس بنیاد پر حاصل نہ ہو گی کہ وہ یہود و نصاریٰ میں سے ہے یا مسلمانوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا صابی ہے، بلکہ اِس بنیاد پر حاصل ہو گی کہ وہ اللہ کو اور قیامت کے دن کو فی الواقع مانتا رہا ہے اور اُس نے نیک عمل کیے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگوں کو اِسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، اِس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ ہو گا۔ یہود کا یہ زعم محض زعم باطل ہے کہ وہ یہودی ہونے ہی کو نجات کی سند سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات ہوتی تو اللہ دنیا میں بھی اُن کے جرائم پر اُن کا مواخذہ نہ کرتا۔ لہٰذا وہ ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب و ملت کے پیرو، اِن میں سے کوئی بھی محض پیغمبروں کو ماننے والے کسی خاص گروہ میں شامل ہو جانے سے جنت کا مستحق نہیں ہو جاتا، بلکہ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان اور عمل صالح ہی اُس کے لیے نجات کا باعث بنتا ہے۔
164 اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت، ظاہر ہے کہ اِس شرط کے ساتھ ہے کہ آدمی نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو جو ایمان اور عمل صالح کے باوجود اُسے جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔ مثلاً کسی بے گناہ کو قتل کر دینا یا جانتے بوجھتے اللہ کے کسی سچے پیغمبر کو جھٹلا دینا۔
اس آیت کےمطابق اللہ تعالیٰ ہر مذہب کے لوگوں کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھیں گے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی مذہب کو نہ مانتا ہو یا اس تک کوئی پیغمبرپہنچا ہی نہ ہو تو اس کے لیے بھی کسوٹی ہے۔ اگر کسی شخص تک اللہ تعالیٰ کی واحدانیت یا قیامت کا علم نہیں پہنچا اسے اس کے نیک اعمال کے بدلے جنت میں داخل کیاجائےگا۔
اس دنیا میں جب ہم طلباء کا امتحان لیتے ہیں توسب طلباء کو یکساں نصاب پڑھاتے ہیں اور اسی نصاب میں سے سوالات ہوتے ہیں۔ اس کا مقصدیہی ہوتا ہے کہ تمام طلباء کو تیاری اور امتحان کے یکساں مواقع یا Level Playing Fieldمہیا کیا جائے۔ مخصوص حالات جیسے آج کل کورونا کی وبا کے دوران ہم امتحانات میں رعایتی نمبر بھی دیتے ہیں۔ جب ہم انسان دوسروں کا امتحان لیتے ہوئے سب کو یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ہم انسانوں کو پیدا کرے اور پھر ہمیں جنت حاصل کرنے کے یکساں مواقع یا Level Playing Fieldفراہم نہ کرے؟کیا کسی کو کافر کے گھر میں اورکسی کو مسلمان کے گھر میں پیدا کرکے دونوں سے ایک ہی طرح کے سوالات کرنا یکساں موقع ہے؟ جس طرح کافر لوگ مسلمانوں کے خلاف مذہبی تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ ویسے ہی ہم مسلمان بھی آپس میں مسلکی تعصب کا شکار ہوتے ہیں اور اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز تک نہیں پڑھتے۔کچھ لوگوں کے رویے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر یہ دوسرے مذہب میں پیدا ہوتے تو اسلام کے خلاف بھی اتنے ہی متشدد ہوتے۔
سورۃ البقرۃ / 2:62 میں تمام بنی نوع انسان کو جو یکساں موقع دیا گیا ہے وہ نیک اعمال کاہے۔اس کے سوا باقی ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ ہر فرد کے حالات و واقعات دیکھ کر ہی فیصلہ فرمائیں گے۔
یاد رہے کہ ہم سب انسان ہیں۔ ہم انسان کی ظاہری حالت کا اندازہ تو کر سکتے ہیں لیکن انسان کے باطن کا نہیں بتا سکتے۔جیسا کہ ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایک ایسی ذات ہے جو انسان کے باطن کو جانتی ہے۔
”وہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو، اور اللہ سینوں کے بھید تک جانتا [17] ہے۔“(سورۃ التغابن / 64:4)
اس آیت کی تشریح میں غامدی صاحب لکھتے ہیں۔
17 یہ اُس مغالطے کو دور کیا ہے جو آخرت کی جزا و سزا کے معاملے میں بالعموم لوگوں کو ہوتا رہا ہے کہ خفیہ اور علانیہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اور جس نیت اور ارادے سے کرتے ہیں، اُس کا علم آخر کہاں محفوظ ہو گا کہ ایک ایک چیز سامنے آجائے اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جا سکے۔ فرمایا ہے کہ اللہ اِن میں سے ہر چیز سے واقف ہے، بلکہ وہ تو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔
”زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے، (اِس لیے تم بھی اے بنی اسرائیل، ایک دن اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) اور جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے، اُسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ اُس کا حساب تم سے لے گا۔ پھر جس کو چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا اور جس کو چاہے گا، سزا دے گا، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“(سورۃ البقرۃ / 2:284)
یعنی انسان کی ظاہری حالت یا اس کے ظاہری عقائد کچھ بھی ہوں اللہ تعالیٰ انسان کے باطنی عقائدکے حوالے سے لوگوں کی جواب طلبی کریں گے۔ یہ دنیا کے انسانی ججوں کی خامی ہوتی ہے کہ انہیں صرف ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کرناپڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو وہ منصف اعلیٰ ہے، جس کے سامنے مجرموں کے جسمانی اعضا بھی بول کر اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے۔ ایسے منصف اعلیٰ کے لیے ایسی باتیں تو بہت چھوٹی ہیں کہ فلاں تک اللہ کا کلام نہیں پہنچا تھا یا فلاں تک کوئی رسول نہیں پہنچا تھا۔ یہ پریشانی جج کی ہوتی ہے کہ وہ انصاف کیسے کریں؟ لیکن جب منصف اللہ تعالیٰ ہوتو پھرہمیں اس حوالے سے زیادہ بحث و مباحثہ کی ضرورت ہی نہیں کہ قیامت کے دن فلاں کا حساب کتاب کیسے اور کن اصولوں کی بنیاد پر لیا جائے گا؟
ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے مسلمان ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن ہمارا امتحان ایسے لوگوں کی نسبت زیادہ سخت ہوگا، جن تک اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہی نہیں پہنچی۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ سورۃ الاحزاب / 33:30، 31میں اللہ تعالیٰ نے عام مسلمان عورتوں کے مقابلے میں امہات المومنین کے لیےدوہری جزااورسزا کا ذکر کیاہے جبکہ سورۃ النساء / 4:25 کے مطابق لونڈیوں کی سزاعام عورتوں کے مقابلے میں نصف ہے۔ یعنی ہمیں تو دوسروں سے زیادہ اپنی فکر کرنی ہے۔ ہمارا امتحان تو قران کے مطابق ہوگا کہ ہم نے کس کس قرانی آیت پر عمل کیا ہے؟
روح کیا ہے؟
قران کریم میں ہے کہ
”وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں (جو تم پر وحی کی جاتی [215] ہے)۔ اِن سے کہو، یہ روح میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور اِس طرح کے حقائق کا تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“ (سورۃ بنی اسرائیل / 17:85)
اس کی تشریح میں غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ
”215 آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ’ رُوْح‘ کا لفظ یہاں وحی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں صادر ہوتی ہیں، اُن کی حقیقت قرآن میں اِسی لفظ سے بیان کی گئی ہے۔ یہ گویا امر الٰہی ہے جو کبھی لفظ اور کبھی نفس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جبریل امین بھی اِسی کا ظہور ہیں۔ چنانچہ اُن کو بھی اِسی اعتبار سے ’رُوْحُ الْقُدُس‘یا’الرُّوْح‘ کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب قرآن نے یہ کہا کہ آپ پر ہم نے ایک روح وحی کی ہے، جس طرح کہ سورۂ شوریٰ (42) کی آیت 52 اور بعض دوسرے مقامات میں فرمایا ہے تو منکرین نے اِسے استہزا کا موضوع بنالیا اور پوچھا کہ یہ روح کیا چیز ہے جو تم پر نازل کی جاتی ہے؟ قرآن نے یہ اِسی سوال کا حوالہ دیا ہے۔“
غامدی صاحب کے مطابق یہاں روح سے مراد اللہ کی وحی کہا ہے ۔ میرے خیال میں بھی روح کا مطلب وحی یا حکم یا کمانڈ ہوتا ہے۔جسے ہم عام طور پر انسانی روح کہتے ہیں وہ بھی اللہ کا حکم ہوتا ہے ۔یہ حکم کئی طرح سے ہو سکتا ہے جیسےحضرت آدم علیہ السلام کے پیکر خاکی میں جان ڈالنے اور مریم علیہ السلام کے بطن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح اللہ تعالیٰ نے کُن کہہ کرپھونکی۔قدرت کا یہ اصول بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ صحت مند نراور مادہ کے ملنے سے نئی روح کے ساتھ نیا انسان تخلیق ہوجائے، چاہے ان ملنے والے مردوعورت کا تعلق شرعی ہویا نہ ہو، چاہے یہ ایک دوسرے کے محرم ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پورا ہو کر رہتا ہے۔
پیدائش آدم
”اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ٭اور الله نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو ٭انہوں نے کہا تو پاک ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایاہے بے شک تو بڑے علم والا حکمت والا ہے ٭فرمایا اے آدم ان چیزو ں کے نام بتا دو پھر جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیئے فرمایا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہوں٭ “(سورۃ البقرۃ / 2:30 تا33 ترجمہ احمد علی)
اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے یہ کلام قران پاک میں دوسری جگہوں پر بھی آیا ہے۔میرے خیال میں سورۃ البقرہ کی آیت 30 میں جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زمین پر خلیفہ بنانے کی بات کی، اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر خاکی تیار ہو چکا تھا۔ یہ پیکر خاکی دیکھنے میں اس وقت زمین پر موجود انسانوں کی دوسری انواع ، جو ارتقاء سے وجود میں آئیں، سے مشابہ تھا۔ یہ انواع، جیسے ہومو ہابلیس(Homo habilis)، ہومو رڈولفینسس(Homo Rudolfensis)، ہومو ارگیسٹر(Homo Ergaster)، ہومو سیپینز(Homo Sapiens) اور ہومو ڈینیسوا(Homo Denisova ) وغیرہ زمین کو نقصان پہنچاتی تھی۔غالباً ان انواع میں سے کسی نوع کے قد کافی بڑے ہونگے، جنہیں بائبل کی کتاب پیدائش کے باب6 آیت 4 میں جبار(giants) کہا گیا ہے۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت آدم علیہ السلام زمین پر موجود ارتقائی انسانوں کے بھی نبی تھے؟ میرا خیال ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اُن سب کےنبی تھے جو حق کو تسلیم یا رد کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔اگر یہ انواع حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اتنی زیادہ ذہین تھی کہ حق کا قبول یا رد کرنے کی عقل رکھتی تو حضرت آدم علیہ السلام اُن کے بھی نبی تھے۔ زمین پر ہمارے یعنی ہومو سیپینزکے سوا دیگر تمام انواع تو ختم ہو گئی اور ہومو سیپینز حق اور باطل میں شعور بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے حضرت آدم علیہ السلام ہمارے نبی تو تھے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے پیکر خاکی کو دیکھ کر ہی فرشتوں نے سمجھا کہ آدم علیہ السلام بھی دوسری انواع کی طرح زمین کو نقصان پہنچائیں گے، جیسے اس وقت شکاری انسانوں کے گروہ کسی جزیرے پر پہنچ جاتے تو چند دہائیوں میں اس جزیرے کے جانوروں کو کھا کر ختم کر دیتے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتوں کو اس طرح کی بات ابلیس نے کی ہو، جسے فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے مختلف طریقے سے بیان کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ ابلیس خود ہی زمین پر خلیفہ بننا چاہتا ہو۔فرشتوں کی بات سن کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا کی تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے یا نام رکھنے کی صلاحیت بخش دی۔ یہ نام وحی کے ذریعے سکھائے گئے تھے جیسا کہ انسانوں کو وحی کرنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ شوریٰ / 42:51 میں بیان کیا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام وحی کے ذریعے نام سیکھنے سے پہلے کسی چیز کا نام نہ جانتے تھے۔جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے چیزوں کے نام پوچھے تووہ نہ بتا سکے۔اس کے بعد جب آدم علیہ السلام سے نام پوچھے تو انہوں نے فوراً بتا دئیے۔اس سے فرشتوں کو اندازہ ہوگیا کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر موجود دیگر انواع سے کافی مختلف اور اللہ تعالیٰ کے ہی ہدایت یافتہ ہیں۔آیت 33 کے الفاظ” اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپا رہے تھے۔“ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ فرشتوں کے دل میں اصل بات کچھ اور ہے لیکن وہ اصل بات کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سب چیزوں کے جو نام سکھائے، یہی نام حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو سکھائے۔ آج تک سب بچے نسل در نسل یہ نام سیکھ رہے ہیں۔ یہ نام مختلف زبانوں میں ہونے کی وجوہات مختلف ہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ جو نئی چیز معلوم ہو اس کا ایک نام رکھنا ہے۔ آج ہم سمندری طوفانوں اور آسمان میں دریافت ہونے والے ستاروں کے نام بھی رکھ سکتے ہیں۔
روح کی نشوونما
عہدالست کے حوالے سے ہی ایک سوال کے جواب میں غامدی کہتے ہیں ”جو انسانی شخصیت ہمیں دی جاتی ہے، وہ ایک باشعور شخصیت ہے۔ وہ ایک پوری شخصیت ہے۔ لیکن جب وہ بچے کو دی جاتی ہے توانسانی دماغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دماغ کے ساتھ اپنا ریلیشن پیدا کرتی ہے۔ یہ ریلیشن پیدا کرنے میں اس کو وقت لگتا ہے۔ یعنی پہلے مرحلے پر جبلی سا ریلیش ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شروع میں اس سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان کے اندر اس کی شخصیت جو باطن میں ہے وہ اس طریقے سے اس کے ظاہری وجود کے ساتھ ریلیشن پیدا کرتی ہے۔ وہ ایک مکمل شخصیت ہے جو اندر موجود ہے۔“
میرے خیال میں یہ درست نہیں۔اگر یہ درست ہے تو پھر انسانوں ہی نہیں بلکہ کئی جانوروں اور پرندوں کی بھی اایسےہی باطنی شخصیت ہونی چاہیے۔ کیونکہ انسانوں کی طرح ہی بہت سے پرندوں کے بچے بھی انڈوں سے نکلتے وقت بے بس ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہی وہ غذا کھانے اور اڑنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے پیدائش آدم علیہ السلام کے حوالے سے ہی قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا
”پھر جب میں اُس کو درست کر لوں اور اُس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اُس کے آگے سجدے میں گر جانا۔“(سورۃ ص / 38:72)
اس روح پھونکنے یا حکم یا کمانڈ دینے سے بھی ہی مٹی کو پتلا جیتا جاگتا انسان ہوا لیکن اس انسان کا دماغ یا اس کا علم ایسا ہی تھا جیسا آج کل پیدا ہونے والے بچے کا ہوتا ہے۔یعنی اُن کاقد پورے آدمی جنتا تھا لیکن دماغ سلیٹ کی طرح صاف تھا۔انہیں کوئی نام بھی معلوم نہیں تھا۔یہ نام سکھانے کی وحی تو اللہ تعالیٰ نے بعد میں کی تھی۔ اگرانسانی جسم کی نشوونما کے ساتھ ہی باطنی شخصیت کا ظہور ہوتا تو آدم علیہ السلام کو وحی کے ذریعے نام نہ سکھانے پڑتے۔
زمین پر اترنے کے بعد جب حضرت آدم علیہ السلام کے بچے ہوئے تو انہوں نے اپنے بچوں کو بھی چیزوں کے نام سکھائے ، روزی روٹی کے طریقے سکھائے۔وحدانیت سکھائی۔ یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے۔اب جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو اُن کے دماغ سلیٹ کی طرح صاف ہوتے ہیں لیکن جب وہ فوت ہوتے ہیں تو اُن کے جسم کے ساتھ ساتھ اُن کی روح بھی نشوونما پا چکی ہوتی ہے۔جب سب فوت ہوکر قیامت میں اٹھیں گے تو انسانوں کی روح اسی حالت میں ہوگی، جس حالت میں کسی انسان کے فوت ہوتے ہوئے تھی۔لیکن دنیا میں بعض لوگ جیسے مجذوب وغیرہ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے جسم کی نشوونما تو ہوتی رہتی ہے لیکن اُن کی روح کی نشوونما نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کی کوئی باطنی شخصیت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کسی طرح کا حساب نہیں ہوگا۔میرے خیال میں تو ایسے لوگ دنیا میں دنیا والوں اور اپنے رشتے داروں کی آزمائش ہوتے ہیں۔ اگر آپ اُن کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو یہ آپ کے جنت میں جانے کا سبب بن جائیں گے۔
بار امانت
سورۃ احزاب / 33:72، 73 میں ایک بار امانت کا ذکر ہے۔
”ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اسکے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا٭تاکہ الله منافق مردوں اور منافق عورتوں اورمشرک مردوں اورمشرک عورتوں کو عذاب دے اور مومن مردوں اورمومن عورتوں پر مہربانی کرے اور الله معاف کرنے والا مہربان ہے“ (سورۃ احزاب / 33:72 ترجمہ احمد علی)
اللہ تعالیٰ زمین اور آسمانوں سے خطاب کس طرح کرتے ہیں اور وہ کس طرح جواب دیتے ہیں؟ انہیں یہ پیشکش کس طرح کی گئی تھی؟ ہمیں اس کا شعور نہیں۔ سورۃ بنی اسرائیل / 17:44 کے مطابق ساتوں آسمانوں میں جو بھی چیز ہے وہ اللہ کی حمد بیان کرتی ہے لیکن ہم اسے سمجھنے کا شعور نہیں رکھتے۔
ان آیات کو پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ عہد عالم ارواح کا نہیں اس دنیا کا ہی ہے۔اس عہد میں انسان کو ظالم اور نادان قرار دیا گیا ہے یہ ظالم اور نادان لوگ وہ ہیں جو عہد کو پورا نہیں کر رہے۔جو اس عہد کو پورا کرے وہ ظالم اور نادان تو نہیں ہوسکتا۔اگر یہ عالم ارواح کا عہد ہے تو انبیاء سے بھی ہوا ہوگا ، اب انبیاء تو ظالم اور جاہل نہیں ہو سکتے۔ انبیاء تو معصوم ہو سکتے ہیں۔ آیت 73 میں ہے کہ یہ ایسا عہد ہے جس سے اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں اورمشرک مردوں اورمشرک عورتوں کو عذاب دے گا اور مومن مردوں اورمومن عورتوں پر مہربانی کرےگا۔یعنی اس عہد کو پورا کرنے والے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر اللہ کا انعام ہوگا، یہ ظالم اور نادان تو نہیں ہوسکتے۔ ہاں اس عہد کو پورا نہ کرنے والے منافق مرد اور منافق عورتیں اور مشرک مرد اور مشرک عورتیں ضرور ظالم اور جاہل ہیں۔ یہ سب عہد بھی اسی دنیا میں وقتاً فوقتاً ہوئے ہیں۔جس کے بارے میں بہت سی آیات اوپر تحریر کر دی گئی ہیں۔
سورۃ احزاب / 33:72کی مزید ایک تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ یہ عہد حضرت آدم علیہ السلام سے اُس وقت ہوا ہو، جب انہیں نبوت نہیں ملی تھی اور ہم سب انسان اُن کی عہد کے اسی طرح پابند ہوں جیسے اولاد اپنے والدین کے قرض ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔اس عہد کو تمام ارواح سے کیا گیا عہد نہیں کہا جا سکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments are closed.