موت پر قابو پانا
جب ہم سائنس کے حوالےسے موت پر قابو پانے کی بات کرتے ہیں توعام طور پر اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان کی اوسط عمر کو بڑھاتے چلے جانا۔ سن 1800ء میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 29 سال تھی۔ صحت کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے 1950ء میں یہ 46 سال ہوگئی۔2015ء میں اوسط عمر 71 سال تھی۔صحت کی بہتر سہولیات کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے موت کو ایک حد تک شکست دی ہے یعنی یہ شکست صرف طوالت عمر کی حد تک ہے۔اس وقت انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا لگانے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ مستقبل میں انسانوں کے جسم میں جانوروں کے یا مصنوعی اعضا بھی استعمال کیے جا سکیں گے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگلے سو سالوں میں انسان کی اوسط عمر ہمارے اندازوں سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ سائنسدان انسانوں کے جسم کے تمام اعضا کے بدلے جانوروں کے جسم کے اعضا یا مصنوعی اعضا لگانے کے قابل ہو چکے ہیں اور ایک انسان کا عضو خراب ہونے پر بار بار تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے انسان کی عمر بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑھ جائے گی؟ فرض کر لیں کہ یہ ایک کروڑ سال ہو جاتی ہے یا دو کروڑ سال ہو جاتی ہے لیکن اس کے بعد ایک دن قیامت کا بھی آنا ہی ہے۔ اُس آنے والی قیامت کی تباہیوں میں تو یہ کائنات ختم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے جب ہمارا ایمان ہے کہ یہ کائنات ختم ہوگی تو اس کے ساتھ ہی وہ کروڑ سال کی عمر پانے والا انسان بھی ختم ہو جائے گا اور پھر قیامت میںزندہ ہوگا اور اپنی طویل عمر کے مطابق اعمال کا حساب دے گا۔ یہ کہنا کہ سائنس موت کو شکست دے گی اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کہ سائنس اورعزرائیل علیہ السلام کا مقابلہ ہو گا اورعزرائیل علیہ السلام آئندہ کسی کی روح قبض نہیں کریں گے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہوگا کہ زندگی اور موت کے فیصلے تو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں پھر انسان اتنی زیادہ عمر کیسے پا سکتا ہے؟
مشاہدے سے اس کا جواب یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے دینی اور دنیاوی اعمال کی جزا اور سزا ضرور پاتا ہے۔ یہ جزا و سزا اسے دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔دنیاوی اعتبار سے دیکھیں تو چند سو سال پہلے تک انسانوں کی اوسط عمر آج کی اوسط عمر سے آدھی سے بھی کم تھی۔ انسان نے صحت اور علاج کی بہتر سہولیات کی وجہ سے اسے بہتر بنایا ہے۔ بلاشبہ یہ صحت اور علاج کی سہولیات کو بہتر بنانے کا صلہ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو بہتر اوسط عمر کی صورت میں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کی کوشش کو ضائع نہیں کرتے۔ آج کے دور میں دیکھا جائے تو دنیا کے ترقی یافتہ میں اوسط عمرغیر ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے سرفہرست ممالک کا تعلق دنیا کے مختلف علاقوں سے ہے۔ جیسے جاپان، سوئزرلینڈ، جنوبی کوریا، سنگاپور، قبرص، سپین، آسٹریلیا، اٹلی، اسرائیل اور ناورے وغیرہ۔ جبکہ جن ممالک میں اوسط عمر سب سے کم ہے وہ براعظم افریقا کے غیر ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں۔ جاپان میں اس وقت انسانوں کی اوسط عمر 84.3 سال ہے جبکہ لیسوتھو میں انسانوں کی اوسط عمر 50.7 سال ہے۔
تمام اعداد و شمار کو دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صحت اور علاج کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ضائع نہیں کرتے بلکہ اسی کے مطابق انسانوں کو اجر ملتا ہے۔ جب غیر ترقی یافتہ ممالک اپنے ملک میں ماحولیاتی آلودگی، خوراک میں ملاؤٹ، ادویات اور علاج کی فراہمی جیسے مسائل پر قابو پا لیں گے تو اس کا اجر انہیں بہتر اوسط عمر کی صورت میں ملے گا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آج اور آنے والے دور میں صحت اور علاج کی سہولیات بہتر ہونے کی صورت میں انسانوں کو ضرور اجر دیں گے۔ویسے بھی اتنی زیادہ عمر پر حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے مذہبی ماخذوں کے مطابق پہلے وقتوں میں انسانوں کی عمر تو سینکڑوں سال عام ہوتی تھی جبکہ تب علاج کی سہولیات بھی نہ ہونے کےبرابر تھیں۔
تحریر: محمد امین اکبر
Comments are closed.