سورہ معاعون
سورۃ الماعون
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ [١٠٧:١]
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟
فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [١٠٧:٢]
یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ [١٠٧:٣]
اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لیے (لوگوں کو) ترغیب نہیں دیتا
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ [١٠٧:٤]
تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے
الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ [١٠٧:٥]
جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں
الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ [١٠٧:٦]
جو ریا کاری کرتے ہیں
وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ [١٠٧:٧]
اور برتنے کی چیزیں عاریتہً نہیں دیتے۔
تشریح
تحریر و تحقیق: محمد امین اکبر
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے لوگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کچھ احکامات دئیے ہیں۔
پہلاشخص آخرت کو جھٹلانے والا۔اس آخرت کو جھٹلانے کی وجہ سے ہی وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور فقیر کو کھانا نہیں کھلاتا اور نہ دوسروں کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے یا ترغیب دیتا ہے۔
دوسرا شخص ایسا نمازی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہے۔نماز میں اور دیگر معاملات میں دکھاوا کرتاہے اور برتنے کی چیزیں ادھار نہیں دیتا۔
پہلے شخص کی بدبختی سے متعلق تو کسی کے ذہن میں کوئی شبہ نہیں لیکن دوسرے غافل نمازی کے بارے میں دیکھتے ہیں۔
غافل نمازی
سب سے پہلےقرآن پاک میں ہی دیکھتے ہیں کہ غافل نمازی کون ہیں؟
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ [٢٣:٩]
‘‘اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ’’
جو پابندی نہیں کرتے وہ غافل ہیں اپنی نماز سے۔
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ [٧٠:٢٣]
‘‘جو نماز کا التزام رکھتے (اور بلاناغہ پڑھتے) ہیں’’
جو نمازوں کو کبھی کبھار پڑھتے ہیں وہ بھی غافل ہوئے۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ [٧٠:٣٤]
‘‘اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں ’’
جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں دوسری چیزوں کو نماز پر اہمیت دیتے ہیں وہ غافل ہیں نماز سے۔
اچھے مصلین کی خصوصیات قرآن پاک سے
إِلَّا الْمُصَلِّينَ [٧٠:٢٢]
‘‘مگر نماز گزار’’
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ [٧٠:٢٣]
‘‘جو نماز کا التزام رکھتے (اور بلاناغہ پڑھتے) ہیں ’’
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ [٧٠:٢٤]
‘‘اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے’’
لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [٧٠:٢٥]
‘‘(یعنی) مانگنے والے کا۔ اور نہ مانگے والے والا کا’’
مطلب زکوٰۃ دیتے ہیں اور زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ خیرات بھی دیتے ہیں۔ اُن کی بھی مدد کرتے ہیں جو لپٹ کر نہیں مانگتے۔ مطلب اپنے ارد گرد کی ہمسایوں کی خبر رکھتے ہیں اُن کو بھوکا سونے نہیں دیتے۔
وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ [٧٠:٢٦]
‘‘اور جو روز جزا کو سچ سمجھتے ہیں’’
مطلب صحیح مصلی (نمازی بلکہ مسلمان) وہ ہو گا جو قیامت پر یقین رکھے گا۔
وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ [٧٠:٢٧]
‘‘اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں’’
جس کو اپنے پروردگار کو خوف ہو گا وہی نماز پڑھے گا، زکوٰۃ دے گا اور نیکی کے کام کرے گا۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ [٧٠:٢٩]
‘‘اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں’’
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ [٧٠:٣٢]
‘‘اور جو اپنی امانتوں اور اقراروں کا پاس کرتے ہیں’’
وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ [٧٠:٣٣]
‘‘اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں’’
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ [٧٠:٣٤]
‘‘اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں’’
غافل اور غیر مصلین (بے نمازی )کے بارے میں قرآن پاک سے
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ [٧٤:٤٣]
‘‘وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے’’
یعنی بے نمازی کا انجام جہنم۔
وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ [٧٤:٤٤]
‘‘اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے’’
وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ [٧٤:٤٥]
‘‘اور اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے ’’
وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ [٧٤:٤٦]
‘‘اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے’’
حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ [٧٤:٤٧]
‘‘یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا’’
یہ یقینی چیز روز جزا یعنی قیامت ہے کہ جس کا اُن کو آخر کار سامنا ہو ہی گیا۔یہ ساری بات چیت جنتی اور دوزخی کے درمیان اُس وقت ہو گی جب وہ قیامت کے بعد جنت اور دوزخ میں جا چکے ہونگے۔
کیسے لوگوں کے لیے خرابی ہے؟
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ [١٠٧:٤]
‘‘تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے ’’
الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ [١٠٧:٥]
‘‘جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں’’
الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ [١٠٧:٦]
‘‘جو ریا کاری کرتے ہیں’’
وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ [١٠٧:٧]
‘‘اور برتنے کی چیزیں عاریتہً نہیں دیتے ’’
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ [٧٠:٢٣]
‘‘جو نماز کا التزام رکھتے (اور بلاناغہ پڑھتے) ہیں ’’
یعنی جو نماز میں ناغہ کرتے ہیں اور صرف فرصت کے اوقات میں ہی نماز پڑھتے ہیں اُن کے لیے بھی خرابی ہے۔
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ [٧٠:٢٤]
‘‘اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے ’’
جن کے مال میں اللہ تعالیٰ کا حصہ نہیں اُن کے لیے بھی خرابی ہے۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ [٧٠:٢٩]
‘‘اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں’’
جو شرمگاہوں کی حفاظت نہیں کرتا اُس کے لیے بھی خرابی ہے۔
یتیموں سے متعلق
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ [٢:٨٣]
‘‘اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہنا، تو چند شخصوں کے سوا تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر کر پھر بیٹھے’’
یتیموں سے اچھا سلوک شروع دور سےہی الہامی حکم رہا ہے۔پہلی الہامی کتابوں میں بھی یتیموں اور بیواوں سے متعلق قرآن جیسے ہی احکامات ہیں۔
ریا کاری سے متعلق
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا [٤:١٤٢]
‘‘یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ در حقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں ’’
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ [٢:٤٥]
‘‘اور (رنج وتکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بے شک نماز گراں ہے، مگر ان لوگوں پر (گراں نہیں) جو عجز کرنے والے ہیں ’’
ریا کار کے لیے بھی نماز گراں ہوتی ہے۔
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ [٢٣:٢]
‘‘جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں ’’
جو عجزونیاز نہیں کرتے وہ دکھاوا کرتے ہیں۔
ریا کاری سے متعلق پچھلی الہامی کتابو ں میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔صرف ایک مثال دیتا ہوں۔
‘‘متّی:باب23 آیت2 ۔فقیہ اور فرِیسی مُوسٰی کی گدّی پر بیٹھے ۔۔۔۔۔5 ۔وہ اپنے سب کام لوگوں کو دِکھانے کو کرتے ہیں کِیُونکہ وہ اپنے تعوِیز بڑے بناتے اور اپنی پوشاک کے کِنارے چوڑے رکھتے ہیں۔ 6 ۔ اور ضِیافتوں میں صدرنشینی اور عِبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کُرسِیاں۔7 ۔ اور بازاروں میں سَلام اور آدمِیوں سے ربّی کہلانا پسند کرتے ہیں۔8۔مگر تُم ربّی نہ کہلاؤ کِیُونکہ تمہارا ا اُستاد ایک ہی ہے اور تُم سب بھائِی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔14۔اَے رِیاکار فقیہو اور فرِیسیو تُم پر افسوس! کہ تُم بیواؤں کے گھروں کو دبا بَیٹھتے ہو اور دِکھاوے کے لِئے نماز کو طُول دیتے ہو۔ تُمہیں زیادہ سزا ہوگی۔’’
کسی کو چیز نہ دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ
‘‘بائبل:امثال : باب3آیت28۔جب تیرے پاس دینے کو کچھ ہو تو اپنے ہمسایہ سے یہ نہ کہنا اب جا ۔ پھر آنا۔میں تجھے کل دوں گا’’
سورۃ الماعون سے احکامات
روز جزا حق ہے اس کو جھٹلانے والا بدبخت ہے۔
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ [١٠٧:١]
‘‘بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟’’
یتیم کو دھکے نہ دو۔
فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [١٠٧:٢]
‘‘یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے’’
فقیروں کو خود بھی کھانا کھلاو اور دوسروں کو بھی ترغیب دو۔
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ [١٠٧:٣]
‘‘اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لیے (لوگوں کو) ترغیب نہیں دیتا ۔’’
اپنی نمازوں سے غافل نہ رہو۔
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ [١٠٧:٤]
‘‘تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے ’’
الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ [١٠٧:٥]
‘‘جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں’’
ریاکاری نہ کرو
الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ [١٠٧:٦]
‘‘جو ریا کاری کرتے ہیں’’
برتنے کی چیزیں ایک دوسرے کو ضرور ادھار دو۔
وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ [١٠٧:٧]
‘‘اور برتنے کی چیزیں عاریتہً نہیں دیتے۔’’
Comments are closed.