ترجمہ و تفسیر سورۃ 65 الطلاق آیت 4 از محمد امین اکبر
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا [٦٥:٤]
ترجمہ:اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اگر ان کے یائسہ ہونے میں شک ہو تو ان کا عدہ تین مہینے ہے اور اسی طرح وہ عورتیں جن کے یہاں حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ عورتوں کا عدہ وضع حمل تک ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے امر میں آسانی پیدا کردیتا ہے (ترجمہ:از سید ذیشان حیدر جوادی)
ترجمہ:اور تمہاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں (باوجود حیض کے سن و سال میں ہو نے کے کسی وجہ سے) حیض نہ آتا ہو اور حاملہ عورتوں کی میعاد وضعِ حمل ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ (ترجمہ:آیت اللہ محمد حسین نجفی)
میرے خیال میں اس آیت کا ترجمہ و مفہوم اس طرح ہے:
ترجمہ ومفہوم:اور تمہاری عورتوں میں سے جن عورتوں کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تم (مردوں کو اُن عورتوں کے حیض سے مایوسی کے بیان پر) شبہ ہو تو ان(عورتوں) کی عدت تین مہینے ہیں اور ان (عورتوں)کی بھی جن کوحیض نہیں آتا(اور اس نہ آنے پر سب کو یقین ہے، عورتوں کا اپنے بارے میں کہنا، کہ حیض نہیں آتا، ہی کافی ہے۔ مردوں کے شبے کی کوئی اہمیت نہیں، اُن کی عدت کی مدت حیض کے حساب سے نہیں مہینوں کے حساب سے ہوگی) اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے (محمد امین اکبر)۔
ان تراجم اور مفہوم سے ساری بات قارئین کی سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں کیا فرما رہے ہیں۔ مزید بات کرنے سے پہلے ہم چند طبی حقائق دیکھ لیتے ہیں۔
عورت کا نظام تولیدکچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ ہر مہینے عورت کی بیضہ دانی میں انڈا تیار ہوتا ہے۔ وہاں پر اگر اس انڈا کا مرد کے سپرم سے ملاپ ہو جائے تو ٹھیک ورنہ انڈا ماہواری کے خون کے ساتھ خارج ہو جاتا ہے۔ماہواری کا خون بچہ کی ابتدائی نشوونما کے لیے ہوتا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ اس کی ابتدائی خوراک ہوتا ہے۔ 45 سے 50 سا ل کی عمر میں عورت کے انڈا بنانے کی صلاحیت میں نقص پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہے یا یہ صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ اسی نقص کی وجہ سے ماہواری یا حیض کا نظام شروع میں کم اور بعد کے سالوں میں زیادہ متاثر ہوتے ہوئے بتدریج ختم ہو جاتا ہے۔ماہواری کے نظام کے اختتام کے لیے کوئی طے شدہ عمر نہیں ہے۔مختلف ہارمونز میں تبدیلی کی وجہ سے یہ عمر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہوار ی کے نظام کی ابتدا کے حوالے سے دیکھا جائے تومختلف ممالک کی مختلف آب و ہوا ، خاندانی اثرات یعنی جینز اور خوراک وغیرہ کی وجہ سے ماہواری کےنظام کی ابتدا کی عمر میں فرق ہوتا ہے۔عام حالات میں یہ عمر گیارہ یا بارہ سال ہوتی ہے مگر کچھ لڑکیوں میں یہ عمر نو یا دس سال بھی ہو سکتی ہے، یعنی کوئی طے شدہ عمر یا قانون نہیں ہے کہ اس عمر میں ماہواری شروع ہو۔گرم ممالک میں یہ عمر کم ہوتی ہے اور سرد ممالک میں زیادہ۔
عدت یا تو طلاق یا خلع کی صورت میں فرض ہوتی ہے یا پھر خاوند کے وفات پانے کی صورت میں ۔اگر حیض آتا ہو اور طلاق ہو جائے تو عدت کی مدت تین حیض ہوتی ہے(2:228) یعنی یہ مدت 64 دن سے لے کر 96 دن تک ہو سکتی ہے۔اگرکوئی عورت بیوہ ہو جائے، اسے چاہے حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو، اس کی عدت کی مدت چار مہینے اور دس دن ہے(2:234)۔
اس سورۃ الطلاق کی آیت چار میں طلاق کے بعد کی صورت حال کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ پہلے تو ایسی عورتوں کا ذکر ہے جن کی عمر 45 سے 65 یا کچھ اور ہو اور اُن کو حیض نہ آتا ہو، کسی بیماری کی صورت میں یا عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے۔ اگر وہ طلاق کے بعد یہ بیان دیں کہ اُن کو حیض نہیں آتا تو ان کی عدت کی مدت تین ماہ ہے۔ تین حیض کی مدت نہیں۔یہ جو شبہ یا شک کی بات کی گئی ہے، یہ عدت کی مدت میں شک و شبہ نہیں بلکہ حیض کے آنے یا نہ آنے پر ہے۔ یعنی مرد کو عورت پر اعتبار نہیں، وہ عورت کے بیان کو جھوٹا سمجھ رہا ہو وغیرہ۔اگر یہاں عدت کی مدت کے بارے میں شک کا اظہار ہوتا تو آیت کے اگلے حصے کا لفظی ترجمہ ہی یہ ہے کہ جن عورتوں کو حیض نہیں آتا۔ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ پہلے حصے میں حیض کے بارے میں شک کی بات ہو رہی ہے نہ کہ عدت کی مدت کے بارے میں ۔آیت کے اگلے حصے میں جو ذکر ہے وہ اُن عورتوں کا ہے جن کے بارے میں سب کو یقین ہے کہ اُن کو حیض نہیں آتا، یہ یقین عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہو یا سب کو پتہ ہو کہ اس عورت کو کوئی ایسی بیماری ہے جس میں حیض نہیں آتا تو اُن عورتوں کی عدت کی مدت کا حساب حیض سے نہیں بلکہ مہینوں کے حساب سے ہوگا جو تین ماہ ہی ہے ، اورطلاق یافتہ حاملہ کی عدت کی مدت ایک دن سے لیکر نو ماہ تک ہے۔ بیوہ حاملہ کی عدت کی مدت چار ماہ دس دن ہی ہے (2:234)۔
آیت کے آخری حصے میں جو ذکر ہے کہ ”اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے “ اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے حمل، حیض کے بارے میں درست بیان دینا۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے ہر کام اللہ تعالیٰ آسان کر دیتے ہیں۔
اس آیت سے یہ پتا چلتا ہے کہ عورت کا اپنے بارے میں یہ کہہ دینا کہ اسے حیض نہیں آتا کافی ہے، مرد کے شبہے کی اس حوالے سے کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے بعد مدت عام مہینوں کے حساب سے ہوگی۔
بہت سے لوگ اس آیت سے کم عمر میں شادی اور خلوت کے جواز کو ثابت کرتے ہیں۔جن عورتوں کو حیض نہیں آتا کا ترجمہ ”حیض شروع نہیں ہوا“ کرتے ہیں، اصل لفظی ترجمہ ہے جن کو حیض نہیں آتا۔ یعنی پہلے حصے میں شک کی بات تھی اور یہاں یقین کی صورت میں حکم ہے۔اس آیت کا کم عمری کی شادی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے، بس حیض کے بارے میں شبہ، یقین اور حاملہ مطلقہ کی عدت کا بیان ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ عدت کی مدت کا تعین صرف حیض سے ہی نہیں ہو سکتا بلکہ حیض نہ آنے کی صورت میں ہوسکتا ہے اور اس صورت میں یہ مدت تین ماہ ہوگی۔ یہ آیت عورتوں یعنی نِّسَا کے بارے میں ہے۔ عربی میں نِّسَا کا لفظ عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، کم عمر لڑکیوں کے لیے نہیں ۔ کم عمر لڑکیوں کوعربی میں ”جاریہ“ کہتے ہیں۔ (جیسا کہ بخاری کی کتاب التفسیر میں ہے سورہ القمر کی تفسیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت درج ہے، جس میں وہ کہتی ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، تب وہ جاریہ (چھوٹی بچی) تھیں۔)
قرآن کریم کی دوسری محکم آیات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کم عمر ی میں کم عقل میں شادی نہیں ہو سکتی۔ شادی کے لیے عاقل ہونا ضروری ہے۔ اس عاقل کو بھی آزمانے کا حکم ہے(4:6)۔نکاح کا معاہدہ ایک عام معاہدہ نہیں ، قرآن کریم نے اسے بہت مضبوط معاہدے یعنی مِّيثَاقًا غَلِيظًا کا نام دیا ہے۔ ایک عام معاہدہ بھی دو عقل مند انسانوں کے درمیان ہوتا ہے تو نکاح جیسا مضبوط معاہدہ کیسے کم عمری میں کیا جا سکتا ہے۔یعنی نکاح کےلیے جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی ضروری ہے۔ کم عمری میں کوئی لڑکی جسمانی طور پر بالغ ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ ہو گئی ہے کہ نکاح جیسا مضبوط معاہدہ کر سکے۔ لڑکے کی طرح اس کی عقل بھی دیکھنی چاہیے۔
Comments are closed.